انسان کو اللہ تعالیٰ نے زمین کی خلافت عطا فرمائی، اس کو اپنا نائب بنایا اور ”ولقد کرّمنا بنی اٰدم“ سے اس کی فضیلت کو ظاہر فرمایا۔ منصب خلافت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احکام کا تابع ہوکر تمام روئے زمین پر حکومت کرے اور تمام کائنات کو مسخر کرلے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو روح اور مادے سے پیدا کیا، اس لئے تسخیر کائنات بھی ان دونوں کی طرف راجع ہے، یعنی مادی طورپر اشیاءکے عادی اور ظاہری اسباب کو تلاش کرکے کائنات کو مسخر کیا جائے، یا روح کی قوتوں کو اجاگر کرکے بغیر ظاہری اور عادی اسباب کے اس عالم آب و گِل کے حقائق کو مسخر کیا جائے۔ مثلاً بینائی کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے مسخر کردیا، خواہ وہ اسے مادی طریقے سے حاصل کرے یا روحانی طریقوں سے۔
موجودہ سائنس نے بینائی کے ظاہری اور مادی اسباب تلاش کرکے اندھوں کو بصارت بخش دی، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بغیر ظاہری اور مادی اسباب کے اندھوں کو بینا کردیا تھا۔
اسی طرح لوہے کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے مسخر کردیا، خواہ مادی طریقوں سے اس کو اپنے کام میں لائے یا روحانی طریقوں سے۔ چنانچہ عام لوگ آگ کے ذریعہ لوہے کو پگھلاکر اپنے کام میں لاتے ہیں، جب کہ حضرت داود علیہ السلام کے دستِ مبارک میں بغیر آگ کے لوہا نرم ہو جاتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے زمین کے اندر پانی رکھا ہے اور اس پانی کو حاصل کرنے کے لئے انسان کی روح اور اس کے بدن کو طریقہ تعلیم فرما دیئے۔ چنانچہ عام انسان مادی اوزاروں کے ذریعہ زمین کھودکر اس سے پانی حاصل کرلیتا ہے، جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بغیر اسباب عادیہ کے پتھر پر عصا مارکر اس سے پانی حاصل کرلیا۔
روحانی طریقہ سے انسان نے اس کائنات کو اس قدر کثرت سے فتح کیا کہ مادی اسباب اس کی تسخیر کے سامنے انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں اور آج تک عقل انسانی ان حقائق کے مادی اسباب کا سراغ پانے سے قاصر ہے،
جن پر روحانیت نے فتح پائی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لاٹھی میں اژدہے کی حیات کو نافذ کرنا، حضرت سلیمان علیہ السلام کا پرندوں کی زبان سمجھنا اور ان سے گفتگو کرنا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قدیم و جدید مردوں میں حیات کو جاری کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گوشت کے ٹکڑوں، لکڑی کے ستونوں، پتھروں اور درختوں میں حیات نافذ کرکے ان سے گفتگو فرمانا اور چاند و سورج پر تصرف فرمانا۔
اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دریائے نیل کو احکام جاری کرنا اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کا زمانہ کو تابع کرلینا۔ یہ امور روحانی تسخیر کے وہ کرشمے ہیں، جنھوں نے مادی اسباب کی پہنچ کو حیرت زدہ کردیا۔
یہ عظیم الشان کائنات اللہ تعالیٰ نے انسان کے بس اور اختیار میں کردی ہے، خواہ وہ اس کو مادی قوتوں سے مسخر کرے یا روحانی قوتوں سے، جب کہ زمین سے چاند کے ماوراءبلکہ آسمانوں کے پار جانا بھی روحانی قوتوں سے ثابت ہوچکا ہے۔
چنانچہ حضرت عیسیٰ اور حضرت ادریس علیہما السلام ہنوز آسمانوں میں زندہ ہیں، جو چاند سے ہزاروں سال مسافت کے بعد پر موجود ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر معراج پر آسمانوں سے گزرکر لامکاں کی بھی سیر کرکے واپس آگئے۔
اس کے مقابلے میں چاند جو ایک حقیر مسافت پر واقع ہے، اس پر مادی اسباب سے جاکر واپس آجانا کسی طرح حیرت و استبعاد کا موجب نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم میں اس پر تائید موجود ہے۔ مولا عزوجل فرماتا ہے: ”ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو انھیں اور ان کے نفسوں میں دکھائیں گے“ (حٰم السجدہ۔۵۳)
حضرت امام رازی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ”اس آیت کریمہ میں آیات آفاق سے مراد آیات افلاک، کواکب، لیل و نہار، روشنی، سایہ، اندھیرے اور عناصر اربعہ وغیرہ ہیں۔ اگر یہ شبہ ہو کہ ”سنریھم“ کا مطلب
یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان حقائق کو ہمیں ابھی تک نہیں دکھایا اور آئندہ دکھائے گا،
حالانکہ اللہ تعالیٰ ہم کو ان تمام حقائق پر پہلے ہی مطلع کرچکا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ ہم کو یہ حقائق پہلے بھی دکھا چکا ہے، لیکن ان حقائق کے اسرار غیر متناہی ہیں، جو اللہ تعالیٰ ہم کو وقتاً فوقتاً دکھاتا رہے گا“۔ (تفسیر کبیر)